Select Menu

اہم خبریں

clean-5

Product.

Islam

Iqtibasaat

History

Photos

Sale

Misc

Technology

رمضان المبارک ، کم خوراکی اور شفا انٹرنیشنل اسلام آبادکا HEAL-Ramadan پروگرام





 جہاں اس ماہ میں عامة المسلمین عبادات اور صدقات و خیرات کی کثرت کرتے ہیں ،وہیں ہمارے معاشرے میں عمومی طور پر بسیار خوری اس کا ایک لازمی جزو بن کر رہ گئی ہے۔بجائے اس کے کہ روزہ رکھ کر انواع و اقسام کے کھانوں سے ایک ماہ پرہیز کیا جائے اور سادہ بود و باش کی عادت ڈالی جائے، الٹا افطار پارٹیوں کے نام پر متعدد کھانے بنا کر بے جا اسراف کیا جاتا ہے اور عام گھروں میں بھی بے شمارچیزیں روزانہ کے حساب سے بنتی ہیں۔
اس کا ایک سادہ سا حساب یوں لگا لیں کہ بظاہر روزہ ہونے کی وجہ سے ایک وقت یعنی دوپہر کا کھانا نہیں پکتا، لیکن عملاً ہر گھرانے کے اخراجات اس ماہ میں دو سے تین گنا ہو جاتے ہیں اور یہ صرف اور صرف کھانے پینے کے حوالے سے اعداد و شمار ہیں۔
ان سے جہاں روحانی طور پر تزکیہِ نفس کی طرف کما حقہ توجہ نہ دے سکنا، اور فالتو اخراجات بلکہ اسراف جیسے نقصانات ہوتے ہیں، وہیں جسمانی طور پر ایک اہم ترین نقصان صحت کی خرابی کا ہوتا ہے جس کی طرف عمومی طور پر لوگوں کی توجہ نہیں ہوتی اورنہ ہی کوئی اس کو سنجیدگی سے لیتا ہے۔
قدرتی طور پر ہم مسلمانوں کو رمضان المبارک ایک انعام کی صورت میں میسر ہے۔ اگر ہم پورے سال میں صرف یہ ایک ماہ ہی روزہ کی حقیقت کو مدِّنظر رکھتے ہوئے کم خوراکی کے ساتھ اچھے طریقے سے گزار لیں تو اس سے بڑی حد تک مطلوبہ طبی فوائد حاصل کر سکتے ہیں۔

طبی تحقیق اور تجربے سے یہ بات ثابت ہے کہ اچھی صحت اور لمبی عمر کے حصول میں چار عوامل بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ان میں متوازن غذا ، مناسب وزن اور جسمانی ساخت، باقاعدگی کے ساتھ ورزش اورتمباکو نوشی سے اجتناب شامل ہیں۔یہ بات بھی تحقیق سے ثابت شدہ ہے کہ کم خوارکی اور بالخصوص کئی گھنٹوں تک کوئی خوراک نہ لینے کا دورانیہ انسانی بدن کے اعضا organsاور ان کے افعال functionsکو بہتر بناتا ہے اور بہت سی بیماریوں مثلاً شوگر یا ذیابیطس،کولیسٹرول، بلڈ پریشر،کینسر، جوڑوں کے درد اور بیماریاں،اور دل کے عوارض سے بچا تا ہے اور ان کے خلاف جسم میں قوتِ مدافعت پیدا کرتا ہے۔
اس حوالے سے شفا انٹرنیشنل ہسپتال اسلام آباد کے ریسرچ ڈیپارٹمنٹ اور شفا تعمیرِ ملت یونیورسٹی اسلام آباد کے اشتراک سے رمضان المبارک کے دوران HEAL-Ramadanکے نام سے ایک معلوماتی اورتحقیقی پروگرام کا آغاز کیا جارہا ہے جس میں اندازاً تین سے ساڑھے تین لاکھ لوگوں کوشامل کیا جائے گا۔
اس پروگرام کے ذریعے لوگوں کو نہ صرف روزہ رکھنے کے دینی اور روحانی پہلوؤں کے بارے میں معلومات فراہم کی جائیں گی بلکہ روزے کی وجہ سے کم خوراکی اور اس سے حاصل ہونے والے مطلوبہ طبی فوائد سے بھی آگاہ کیا جائے گا۔اس پروگرام میں حصہ لینے والوں کو بذریعہ SMSاور پیغام رسانی کے دوسرے ذرائع سے رمضان المبارک میں اپنی صحت کو بہتر بنانے کے لیے سائنسی اور طبی مشورے بھی فراہم کیے جائیں گے۔
معلوماتی پیغامات کا مقصد پروگرام کے شرکاء کومسلسل یاددہانی کے ساتھ ساتھ معلوماتی پیغامات کے ذریعے طبی نقطہ نگاہ سے مناسب خوراک اور دیگر عوامل کے متعلق آگاہی دینا ہے۔جو احباب اس پروگرام میں شریک ہونا چاہیں وہ کالم کے آخر میں دیے گئے لنک linkپر کلکclickکر کے چند معلومات فراہم کر کے اس میں رجسٹر ہوسکتے ہیں اور اس پروگرام کا حصہ بن سکتے ہیں۔


تمام دنیا میں موجود مذاہب میں روزہ یا کم خوراکی یا کسی بھی صورت میں fastingکو بڑی اہمیت دی جاتی ہے ، اور ہمارے مذہب اسلام میں تو روزہ اسلام کے بنیادی /اساسی ارکان میں شامل ہے۔Fastingیاروزہ یا کم خوراکی کے متعلق کئی عشروں سے طبی تحقیق جاری ہے، لیکن موجودہ چند سالوں میں جبکہ سائنس بظاہر اپنی ترقی کے عروج پرجاتی نظر آتی ہے،اس موضوع پر خاطر خواہ کام ہوا ہے۔
بنیادی بات جو اب تک تحقیق سے ثابت ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ روزہ رکھنے یا دوسری صورت میں خوراک کی مقدار اور اس کے اوقات کو محدود کرنے سے بہت سارے طبی فوائد کا حصول ممکن ہے۔میڈیکل سائنس میں اس کے لیے intermittent fasting اور time restriced fasting کی اصطلاحات استعمال کی جاتی ہیں۔

intermittent fastingسے مراد یہ ہے کہ ہفتے میں ایک دو دن خوراک انتہائی کم کر دی جائے ، مثلاً اگر آپ معمول میں روزانہ دو یاتین مرتبہ کھانا کھاتے ہیں تو اب ایک دفعہ کھائیں، یا ایسا ہفتے میں دو یا تین دن کیا جائے یا ہر دوسرے دن ایسا کیا جائے۔
اس کے برعکس time restricted fasting یا TRF میں دن بھر میں 15 سے 18گھنٹوں تک کچھ نہیں کھایا جاتا اور باقی ماندہ 6 سے 9 گھنٹوں میں خوراک لی جاتی ہے۔ اسلام میں مذکورہ بالا دونوں اقسام کی کم خوراکی کی بڑی تاکید ہے اور ہمارے اکابرین کا اس پر عمل تاریخ سے ثابت ہے۔ خود نبی کریم روؤف الرحیمﷺ کی زندگی کم خوراکی کا اعلی ترین نمونہ ہے اور ان کے صحابہ رضوان اللہ علیھم اجمعین بھی اپنی اپنی زندگیوں میں عمومی طور پر اسی پر عمل پیرا رہے۔
سو اس لحاظ سے دیکھا جائے اوراس نیت سے اس پر عمل کیا جائے کہ یہ ہمارے پیارے نبی ﷺکا عمل تھا توفرض کی ادائیگی اور طبی فوائد کے حصول کے ساتھ ساتھ سنتِ رسول پر عمل کرنے کا ثواب ملنے کی بھی قوی امید بلکہ یقین ہے۔بنظرِ عمیق دیکھیں تو رمضان المبارک TRFکی انتہائی عمدہ مثال ہے جس کے دوران سحر سے لے کر افطار تک کے اوقات یعنی قریب قریب دن کے 12 سے 14گھنٹوں میں کچھ بھی کھانے پینے پر مکمل پابندی ہوتی ہے اور صرف سحر اور افطار کے محدود اوقات میں ہی کچھ نہ کچھ خوراک لی جاتی ہے۔


اس حوالے سے یہ بات سمجھنا اشد ضروری ہے کہ خوراک کی کمی کا اصول کیا ہے؟کیونکہ اس کو درست طور پر سمجھے اور پھر عمل کیے بغیر مطلوبہ فوائد حاصل نہیں کیے جا سکتے۔کم خوراکی کا اصول یہ ہے کہ محدود اوقات میں کھانے پینے کے وقفے کو اندھادندھ خوراک لینے کے لیے استعمال نہ کیا جائے بلکہ اس دوران عام خوراک استعمال کی جائے اور بے تحاشا کھانے سے گریز کیا جائے۔
Heal-Ramadanپروگرام کا بنیادی مقصد بھی اسی نقطہ کو اجاگر کرنا ہے کہ سحر اور افطار کے اوقات میں بسیار خوری کی بجائے کم اور متوازن خوراک استعمال کی جائے۔عام معمول کے مطابق دن بھر میں مرد حضرات 2500KCalاور خواتین 2000KCalخوراک استعمال کرتی ہیں۔عام طور پر ہم ناشتے میں 600KCal، دوپہر کے کھانے میں800-KCal600 اور رات کے کھانے میںKCal800-1000استعمال کرتے ہیں۔
یہ وہ خوراک ہے جویا وزن کو بڑھاتی ہے یا پھر بدستور اسی حالت میں برقرار رکھتی ہے۔رمضان المبارک کے دوران صبح کا ناشتہ اور دوپہر کا کھانا اور شام کی چائے وغیرہ ختم ہوجاتے ہیں، یعنی قریباً 1800-1500KCaliہماری روزانہ کی خوراک میں سے کم ہوجاتی ہیں۔اب اگر سحر میں تقریباً 800KCalاور افطار میں 800-KCal1000کی خوراک لی جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم عام معمول سے 500-800 KCalکم خوراک لے رہے ہیں۔
اس رجحان کو اگر جاری رکھا جائے تو ہم رمضان المبارک کے دوران 5 کلوگرام تک وزن باآسانی کم کر سکتے ہیں۔

لیکن یہ یاد رہے کہ ہمارا مقصد صرف وزن کم کرنا نہیں، بلکہ اس کا سب سے اہم فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اس کم خوراکی کے دوران بدن کے اعضاء کو آرام ملتاہے اور وہ بدن کے خلیات کے افعال کو بہتر بناتے ہیں، جس سے بہت سی بیماریوں میں افاقہ /بچاؤہوتا ہے۔
اس بات کو اس مثال سے سمجھیے کہ اگر کسی گاڑی یامشین کا انجن متواتر استعمال ہوتا رہے تو اس میں خرابی کا امکان پیدا ہو جاتا ہے، لیکن اگر اس کو چند گھنٹوں کے لیے بند کردیا جائے تو اس کے بعد استعمال پر اس کی کارکردگی میں اضافہ ہوجاتا ہے۔لیکن یہ بھی یاد رہے کہ چند گھنٹوں کے آرام کے بعد اگر اسی انجن کوغیر ضروری طور پر زیادہ استعمال کیا جائے تو فائدہ کی بجائے نقصان کا اندیشہ ہوگا۔
بعینہ یہی صورتحال انسانی جسم اور اس کے اعضاء کے افعال کی ہے۔یعنی اگر ہم رمضان المبارک کے دوران معمول بن جانے والی کم خوراکی کو رمضان المبارک کے بعد بھی جاری رکھیں تو اس سے خاطر خواہ فائدے حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ لیکن اگر ایک ماہ کے بعد ہم ایک بار پھر واپس اسی خوراک پر چلے جائیں تو وہ اعضاء جو آرام ملنے کے باعث بہتر کام کرنا شروع ہو گئے تھے، ان پر پھر سے دباؤ آنا شروع ہو جاتا ہے اوراگر بسیار خوری کرنا شروع کر دیں تو ظاہر ہے اعضاء کو معمول سے زیادہ کام کرنا پڑتا ہے جس کی وجہ سے انسان مختلف اقسام کی بیماریوں کا آسان شکار بن جاتا ہے۔


HEAL-Ramadan پروگرام کی رجسٹریشن جمعہ 24اپریل 2020 تک جاری رہے گی۔

نائیجریا کی 68 سالہ خاتون کے ہاں جڑواں بچوں کی پیدائش





لاگوس یونیورسٹی ٹیچنگ ہوسپیٹل نے اعلان کیا کہ مارگریٹ اڈینوگا نے سیزارین سیکشن کے ذریعے 1 بیٹے اور 1 بیٹی کو جنم دیا ہے۔
ہسپتال نے بتایا کہ بچوں کی پیدائش 14 اپریل کو ہوئی تھی لیکن  انہوں نے اس کا اعلان کرنے سے پہلے مارگریٹ اور بچوں کی صحت یابی کا انتظار کیا۔
نائیجریا کے ایک ہسپتال نے اعلان کیا ہے کہ ایک 68 سالہ خاتون نے   آئی وی ایف کے تین ناکام پروسیجر  کے بعد جڑواں بچوں کو جنم دیا ہے۔

مارگریٹ کے شوہر نوح کی عمر 77 سال ہے۔ دونوں کی شادی 1974 میں ہوئی تھی۔ دونوں کو ہی بچوں کی شدید خواہش تھی۔ بچوں کے لیے وہ تین بار آئی وی ایف ٹریٹمنٹ بھی کرا چکے  تھے جو ناکام ثابت ہوئے۔
طویل عمر میں بچوں کی پیدائش کا ریکارڈ  73 سالہ
 بھارتی خاتون کے پاس ہے ، جنہوں نے 2019 میں جڑواں بچوں کو جنم دیا تھا۔

امریکا میں قدرتی گیس کے نرخوں میں 5 فیصد کمی






ماہرین کے مطابق ملک کی ذیلی 48 ریاستوں کی طلب اور برآمدات میں کمی کے
 باعث آئندہ ہفتے گیس کی کھپت 87 ارب مکعب فٹ یومیہ سے کم ہوکر 84.8 ارب مکعب فٹ یومیہ رہنے کا امکان ہے۔ 
امریکا انرجی انفارمیشن ایڈمنسٹریشن کے مطابق ملک میں ڈرلنگ میں کمی کے باعث گی
 س کی اوسط سالانہ پیداوار رواں سال کم ہوکر 91.7 ارب مکعب فٹ یومیہ جبکہ 2021 ء میں 87.5 ارب معکب فٹ یومیہ تک پہنچنے کا امکان ہے۔
امریکا میں قدرتی گیس کے نرخوں میں 5 فیصد سے زیادہ کمی ہوئی جس کی وجہ معتدل موسم کے باعث اس کی طلب کم ہونا ہے۔نیویارک مرکنٹائل ایکسچینج میں گیس کے مئی کے لیے سودے 9.5 سینٹ (5.4 فیصد) گر کر 1.651 ڈالر فی ملین برٹش تھرمل یونٹ طے پائے۔




شمالی کوریا کے لیڈر کم جونگ ان کی جگہ کون لے سکتا ہے؟






شمالی کوریا کا سرکاری میڈیا اپنے ملک میں ہر چیز کے ٹھیک ہونے کا پیغام دے رہا ہے لیکن دنیا کے دوسرے حصوں میں شمالی کوریا کے سپریم لیڈر کم جونگ ان کی صحت کے بارے میں قیاس آرائیاں جاری ہیں۔ ان کی شدید بیماری کے ساتھ ان کی موت کے بارے میں بھی افواہوں کا بازار گرم ہے۔
ان کی صحت کے متعلق قیاس آرائیوں کا یہ دور 15 اپریل کے بعد شروع ہوا کیوں کہ کم جونگ اُن اس دن اپنے دادا اور شمالی کوریا کے بانی کم اِل سونگ کی سالگرہ کی تقریبات میں شریک نہیں ہوئے تھے۔
جنوبی کوریا اور امریکہ کی حکومتوں نے کہا ہے کہ شمالی کوریا میں ایسی کوئی غیر معمولی سرگرمی نہیں دیکھی گئی ہے جس سے یہ اندازہ لگایا جا سکے کہ کم جونگ ان شدید بیمار ہیں یا ان کی موت ہوگئی ہے۔ لیکن جب تک شمالی کوریا کی حکومت کے زیرکنٹرول میڈیا اس کے متعلق کوئی اعلان نہیں کرتا اس وقت تک کم جونگ ان کے بارے میں افواہوں کا سلسلہ جاری رہے گا۔

اگر یہ افواہیں درست ہیں تو پھر سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ شمالی کوریا کے سربراہ کی حیثیت سے کِم جونگ ان کی جگہ کون لے گا؟



کم جونگ ان کی چھوٹی بہن کم یو جونگ کو شمالی کوریا میں ملک کے نئے رہنما کے لیے پہلی پسند کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
31 سالہ کم یو جونگ اپنے بھائی کی طرح مغربی ملک سوئٹزرلینڈ میں تعلیم حاصل کر چکی ہیں۔ وہ پولٹ بیورو کی رکن ہیں اور ملک کے سب سے اہم پبلسٹی اینڈ موومنٹ ڈیپارٹمنٹ کی اسسٹنٹ ڈائریکٹر بھی ہیں۔
انھیں کِم جونگ ان کی 'سیکرٹ ڈائری' کے طور پر بھی شہرت حاصل ہے۔ ایسا خیال ظاہر کیا جاتا ہے کہ کم جونگ ان کے روز مرہ کے کام کاج میں بھی یو جونگ کا اہم کردار ہوتا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے بھائی کو پالیسی معاملات پر بھی مشورہ دیتی ہیں۔ کم یو جونگ نام نہاد 'ماؤنٹ پیکٹو بلڈ لائن' کی رکن بھی ہیں جو کہ کم اِل سونگ کی براہ راست نسل کے طور پر دیکھا جاتا ہے اور جن کا شمالی کوریا کی سیاست میں اہم کردار رہا ہے۔





لیکن یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ ہر چیز میں جلد بازی کا مظاہرہ کرتی ہیں جس کی وجہ سے ان کی جانب سے غلطیوں کا زیادہ امکان رہتا ہے۔
گذشتہ دنوں کِم جونگ ان اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ملاقات کے دوران چھپ کر جھانکتی ہوئی ان کی تصویر کی وجہ سے کم جونگ ان کو سبکی ہوئی تھی۔ بہر حال کم یو جونگ نے پہلی بار اس طرح کی حرکت نہیں کی تھی۔
لیکن ایک سوال یہ بھی ہے کہ کیا شمالی کوریا کسی خاتون کی قیادت کے لیے تیار ہے؟ شمالی کوریا کے سیاسی اور معاشرتی نظام میں خواتین کا اہم کردار ہے لیکن طاقتور پوزیشن پر ان کی موجودگی انتہائی کم ہے۔
ایسی صورتحال میں کیا وہ کِم خاندان کی رکن کی حیثیت سے پدرشاہی معاشرے کے چیلینج پر فتح حاصل کر سکیں گی؟

 کم جونگ چول


کم جونگ ان کے بڑے بھائی کِم جونگ چول ہیں۔ ان کے والد نے انھیں شمالی کوریا کے مستقبل کے رہنما کی حیثیت سے تیار کیا تھا لیکن کم جونگ چول نے فوج اور سیاست میں زیادہ جوش و خروش نہ دکھایا تو پھر اس کے بعد کم جونگ ان کو ان کی جگہ دے دی گئی۔
کم جونگ چول کو بھی عام طور پر عوام میں نہیں دیکھا جاتا ہے۔ انھیں سنہ 2015 میں لندن میں اس وقت دیکھا گیا تھا جب وہ اپنے پسندیدہ گٹارسٹ ایرک کالپٹن کے رائل البرٹ ہال میں منعقدہ ایک کنسرٹ میں نظر آئے تھے۔
لیکن کیا انھیں ملک کی قیادت حاصل ہوگی؟ اس کا امکان بہت کم ہے۔

جانشین کا انتخاب کس طرح ہوگا؟

سنہ 1948 میں شمالی کوریا کے قیام کے بعد سے ہی وہاں کِم خاندان کے افراد کی حکومت رہی ہے۔
ملک کے نئے قائد کا باضابطہ اعلان شمالی کوریا کی پارلیمنٹ سپریم پیپلز اسمبلی ہی کرتی ہے۔ لیکن ورکرز پارٹی اور ان کے حامیوں کے زیر اثر شمالی کوریا کی پارلیمنٹ کو ربڑ سٹامپ پارلیمنٹ بھی کہا جاتا ہے۔ سرکاری طور پر باضابطہ اعلان سے مہینوں یا برسوں پہلے ہی رہنما کا انتخاب ہو جاتا ہے۔
کِم جونگ ان کے والد کم جونگ اِل سنہ 1994 میں شمالی کوریا کے بانی اور اپنے والد کم اِل سونگ کی وفات کے بعد رہنما بنے تھے۔ انھوں نے اپنی حکمرانی کے دوران شمالی کوریا کی سیاست میں کِم خاندان کے اہم کردار کو یقینی بنایا۔
انھوں نے ایک ایسا بیانیہ تیار کیا جس میں یہ کہا گیا کہ کِم خاندان کوریائی تہذیب کی پرورش کرنے والے مقدس کوہ آتش فشاں پیکٹو کے عظیم خاندان میں سے ایک ہے۔ انھوں نے اپنے خاندان کو اس مقام پر پہنچا دیا جس کے متعلق یہ عقیدہ بن گیا کہ اس خاندان کے لوگ حکمرانی کے لیے پیدا ہوئے ہیں۔
کِم اِل سونگ نے کم جونگ اِل کو اپنا جانشین منتخب کیا۔ اور پھر کِم جونگ اِل نے اپنے بیٹے کِم جونگ ان کو اقتدار سونپ دیا۔
کم جونگ ان کی اپنی فیملی ہے لیکن اب تک ان کی کسی اولاد کو عوام میں نہیں دیکھا گیا ہے۔ اور نہ ہی کسی کو اقتدار سنبھالنے کے لیے تیار کیا گیا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ شمالی کوریا کے عوام کم جونگ ان کے بچوں کا نام تک نہیں جانتے۔
شمالی کوریا میں کم جونگ ان کی جگہ لینے کے لیے کسی کو بھی ممکنہ رہنما کے طور پر تیار نہیں کیا گیا ہے۔ ایسی صورتحال میں کِم کی بے وقت رخصتی سے ایک خلا پیدا ہوگا جس کو پورا کرنا مشکل ہوگا۔



عرفان خان: بڑے خواب دیکھنے والا روایت شکن فنکار

  جب میرا نائر کی فلم ’سلام بمبئی‘ پوری دنیا میں دھوم مچا رہی تھی تو شاید ہی کسی نے اس میں کام کرنے والے 18-20 سال کے دبلے پتلے لڑکے پر غور کیا ہو جو سکرین پر چند سیکنڈ کے لیے دکھائی دیتا ہے۔
اداکار عرفان خان نے اس فلم میں سڑک کنارے بیٹھ کر لوگوں کے خط لکھنے والے لڑکے کا ایک چھوٹا سا کردار ادا کیا تھا اور چند مکالمے بھی بولے تھے۔
'بس بس دس لائن ہو گئیں۔ آگے لکھنے کے 50 پیسے لگیں گے۔ ماں کا نام پتا بول۔'
لوگوں نے پہلی بار عرفان خان کو فلمی سکرین پر دیکھا اور بھول گئے لیکن شاید ہی کسی کو معلوم تھا کہ یہ اداکار آگے چل کر نہ صرف انڈیا بلکہ دنیا بھر میں نام کمائے گا۔
1966 میں جے پور میں پیدا ہونے والے عرفان خان کا بچپن ایک چھوٹے سے شہر ٹونک میں گزرا۔ یہ شہر چھوٹا تھا لیکن عرفان کے خواب بڑے تھے۔

بچپن سے ہی قدرتی طور پر قصے کہانیوں میں دلچسپی رکھنے والے عرفان کا رحجان فلموں کی طرف ہو گیا اور وہ بھی خاص طور پر نصیر الدین شاہ کی فلمیں۔

انڈیا کے راجیہ سبھا ٹی وی کو دیے ایک انٹرویو میں اپنی نوعمری کا ایک قصہ سناتے ہوئے عرفان نے بتایا تھا 'مِتھن چکرورتی کی فلم ’مرگیا‘ آئی ہوئی تھی۔ کسی نے کہا تیرا چہرہ متھن سے ملتا ہے۔ بس مجھے لگا کہ میں بھی فلموں میں کام کر سکتا ہوں۔ کئی دنوں تک میں متھن جیسے بال بنا کر گھومتا رہا۔'
آگے چل کر عرفان خود ایک رجحان ساز اداکار بننے والے تھے اور یہ بات وہ نوعمری میں نہیں جانتے تھے۔


ایک جانب جہاں انہوں نے خود کو ہندی سنیما کے سب سے قابل اداکاروں کی فہرست میں شامل کر لیا وہیں ہالی وڈ میں لائف آف پائی، دا نیم سیک، سلم ڈاگ ملینیئر، دا مائٹی ہارٹ، دا امیزنگ سپائڈر میین جیسی فلموں میں بھی کام کیا۔
اور اس سفر میں انھیں اینگ لی اور میرا نائر سے لے کر انیس بزمی اور شوجیت سرکار جیسے ہدایت کاروں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔
چاہے آنکھوں سے اداکاری کا فن ہو، مکالمے بولنے کا قدرتی ہنر، رومانی کردار سے لے کر ڈاکو بننے تک کی صلاحیت، عرفان خان جیسا دوسرا فنکار ڈھونڈنا آسان نہیں۔
مثال کے طور پر ان کی فلم پان سنگھ تومر میں ایک ڈاکو کا کردار، جس طرح وہ معصومیت، بھولاپن، درد، تذلیل اور بغاوت کا احساس ایک ساتھ لے کر آئے، یہ کام کوئی غیر معمولی اداکار ہی کر سکتا ہے۔


جب نظام سے مایوس ہوکر بندوق اٹھانے والا باغی بولتا ہے 'بھیڑ میں باغی ہوتے ہیں، ڈکیت ملتے ہیں پارلیمان میں'، تو سارا تھیٹر تالیوں سے گونج اٹھتا ہے۔ یہ تالیاں صرف مکالمے پر ہی نہیں بجتیں بلکہ اپنی اداکاری سے عرفان خان نے ناظرین کو یہ یقین دلا دیا تھا کہ اس مکالمے میں جو بات کہی جا رہی تھی وہ صحیح تھی، بھلے وہ جانتے ہوں کہ وہ بات اصل میں صحیح نہیں تھی۔ فلم ’حیدر‘ میں وہ کردار جس میں وہ کہتے ہیں 'جہلم بھی میں، چِنار بھی میں، شیعہ بھی میں، سنی بھی میں اور پنڈت بھی۔' یہ کردار جو کہنے کو ایک بھوت تھا آپ کو یقین دلاتا ہے کہ وہ اصل میں ہے اور آپ کے ہی ضمیر کی آواز ہے۔
عرفان اپنے آپ میں ہنر کی کان تھے۔ خاص طور پر ایک ایسی انڈسٹری میں جہاں عامر خان، سلمان خان اور شاہ رخ خان جیسے اداکاروں کا نام چلتا ہے۔

یا پھر فلم مقبول میں ابا جی (پنکج کپور) کی وفاداری اور نمی (تبو) کی محبت کے درمیان پھنسا میاں مقبول جو ابا جی کا قتل کر کے ان سے پیچھا تو چھڑا لیتا ہے لیکن پچھتاوے سے نہیں بھاگ پاتا۔ وہ منظر جہاں عرفان اور تبو کو اپنے ہاتھوں پر خون کے دھبے نظر آتے ہیں، بغیر کچھ کہے اس میں عرفان احساس ندامت کے جذبات دیکھنے والوں تک پہنچا دیتے ہیں۔
جب فلم جذبہ میں وہ ایشوریا رائے سے کہتے ہیں 'محبت ہے اسی لیے تو جانے دیا، ضد ہوتی تو بانہوں میں ہوتی' تو دیکھنے والوں کو یقین ہوتا ہے کہ اس سے دلکش عاشق ہو ہی نہیں سکتا۔
کہنے کا مطلب یہ ہے کہ عرفان خان کی خاصیت یہی تھی کہ وہ جس کردار میں پردے پر نظر آئے، تھیٹر میں بیٹھے لوگوں کو لگتا تھا کہ ان سے بہتر تو یہ کردار کوئی اور کر ہی نہیں سکتا تھا۔
اس انڈسٹری میں جہاں ٹائپ کاسٹ ہو جانا بہت عام بات ہے، عرفان ان تمام روایات کو توڑتے چلے گئے۔
فلم ’حاصل‘ کے بعد انھیں تمام منفی کردار ملنے لگے لیکن اسی دوران انہوں نے ہندی میڈیم جیسی فلم میں کام کر کے ایک بار پھر یہ ثابت کر دیا کہ کامک ٹائمنگ میں ان کا کوئی جواب نہیں۔ اس فلم میں ان کے ساتھ پاکستانی اداکارہ صبا قمر نے مرکزی کردار ادا کیا تھا۔
اگر آپ نے ’قریب قریب سنگل‘ یا ’پیکو‘ دیکھی ہے تو ضرور خیال آیا ہوگا کہ عرفان اصل زندگی میں کتنی رومانوی طبیعت کے شخص ہوں گے۔ وہ اصل میں ایسے تھے بھی اور کھلے عام اس کا اعتراف بھی کیا کرتے تھے۔
لیکن عرفان کی کامیابی کے پیچھے برسوں کی گمنامی، جدوجہد اور ٹیلی ویژن کا مشکل سفر بھی شامل تھا۔
کئی دیگر اداکاروں کی طرح انڈیا کے نیشنل سکول آف ڈرامہ میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد عرفان خان نے ممبئی کا رخ کیا لیکن وہاں فلموں میں چھوٹے موٹے کردار کے علاوہ انھیں کچھ نہیں ملا۔



بین الاقوامی سطح پر عرفان معمولی اہمیت نہیں رکھتے تھے۔ اسیم چھابڑا کی کتاب ’عرفان خان، دا مین، دا ڈریمر، دا سٹار' میں ذکر ہے کہ جب 2010 میں عرفان خان نیویارک میں ایک ریستوران میں تھے تو سامنے والی میز پر انھوں نے ہالی وڈ اداکار مارک رفلو کو دیکھا۔
عرفان ایک مداح کی طرح ان سے ملنا چاہتے تھے لیکن تکلف کر رہے تھے کیوں کہ وہ بڑا نام تھے۔ اتنی دیر میں مارک خود اٹھ کر ان کے پاس آئے اور بولے 'آپ کا کام دیکھا سلم ڈاگ میں۔ آپ نے بہت عمدہ کام کیا ہے۔'
یہ عجیب اتفاق کی بات ہے کہ جب عرفان نیشنل سکول آف ڈرامہ میں اپنی تعلیم مکمل کر رہے تھے تبھی انھیں اپنی پہلی بین الاقوامی فلم مل گئی تھی۔
میرا نائر نے انھیں سلام بامبے میں ایک بڑے کردار کے لیے چنا تھا۔ وہ بمبئی آکر ورکشاپ میں شامل ہوئے اور دو روز بعد ان سے کہا گیا کہ وہ فلم کا حصہ نہیں ہیں۔
بی بی سی کو دیے ایک انٹرویو میں انھوں نے بتایا کہ اس روز وہ رات بھر روتے رہے۔
پھر انھیں فلم میں چھوٹا سا کردار دے دیا گیا لیکن یہ قرض میرا نائر نے 18 برس بعد عرفان خان کو دا نیم سیک میں اشوک گانگُولی کا کردار دے کر ادا کیا۔
اس فلم کو دیکھ کر بالی وڈ کی اداکارہ شرمیلا ٹیگور نے عرفان خان کو پیغام بھیجا تھا جس میں لکھا تھا 'اپنے والدین کا شکریہ ادا کرنا تمہیں جنم دینے کے لیے۔'
اتفاق کی بات ہے کہ عرفان کی وفات سے تین روز قبل ہی ان کی والدہ سعیدہ بیگم کا بھی انتقال ہوا اور اب عرفان اس دنیا کو الوداع کہہ چلے۔
ہندی سنیما اور عالمی سنیما کو اپنی اداکاری سے سنوارنے والے، اپنی فلموں سے یہ بتانے والے کہ ہر احساس صحیح یا غلط، بلیک یا وائٹ نہیں ہوتا، اپنے چاہنے والوں کو ہنسانے اور رلانے والے عرفان خان کا تہہ دل سے شکریہ۔
کل رات ان کی فلم انگریزی میڈیم دیکھتے ہوئے گزری جو گذشتہ ماہ ہی ریلیز ہوئی تھی۔
راجستھان کے ایک چھوٹے سے قصبے کے رہنے والے اس کردار چمپک بنسل کے خوابوں کی داستان بالکل عرفان کی اصل زندگی کی طرح ہے اور چمپک بنسل کے قہقہے آج دیر تک کمرے میں گونجتے رہیں گے۔




لاک ڈاؤن کے دنوں میں دیکھے جانے والے بہترین پاکستانی ڈرامے۔۔

ملک بھر میں حکومت کی طرف سے لاک ڈاؤن میں توسیع کی جارہی ہے۔ کرونا کے باعث یہ وقت کا تقاضا بھی ہے کہ سماجی فاصلے کو فروغ دیتے ہوئے کم سے کم اور ضرورت کے تحت ہی گھر سے باہر نکلا جائے۔اگرچہ چوبیس گھنٹے کا دن گھر میں رہ کر گزارنا اور صرف ضرورت کے تحت باہر نکلنا ایک کٹھن ڈیوٹی ہے۔ لیکن ان لاک ڈاون کے دنوں میں بہت سے  آرٹیکلز  اور بلاگ پڑھ چکی ہوں جن میں طویل فرصت کے لمحات کو گزارنے کے مثبت اور بہترین طریقے بتائے گئے ہیں۔
ان بغیر مانگے عطا کردہ چھٹیوں میں تفریح اور وقت گزارنے کا ایک طریقہ پاکستان ٹیلی ویژن کےہٹ ڈراموں کو ایک بار پھر سے دیکھنا بھی ہو سکتا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ پی ٹی وی کے ڈرامے لازوال ہیں۔ لیکن اس دور کے بھی  ایسے بہت سے ڈرامے ہیں جو منفرد مواد اور سبق آموز ہونے کی وجہ سے شہرت کی بلندیوں پر پہنچے۔
        
ان کی ایک لمبی فہرست میں سے پانچ ایسے ڈراموں کا انتخاب کیا ہے جو میرے دل کے بہت قریب ہیں۔

'داستان'

        اس ڈرامے کی داستان پاک وہن تقسیم پر مبنی ہے۔
 رضیہ بٹ کے ناول بانو کی کہانی کو پردے پر انتہائی خوبصورتی سے پیش کیا گیا ہے۔ ڈرامہ کا مرکزی کردار بانو ایک مسلمان عورت کی جدوجہد  آزادی کی کہانی ہے۔
جو ہندوستان کی تقسیم کے بعد ہونے والی خوفناک فسادات کا شکار ہوتی ہے۔ یہ ڈرامہ ان  مسلمانوں کی تکالیف کا ترجمان ہے جنہیں پاکستان میں قدم رکھنے کے لیے ناقابل معافی الام ومصائب کا سامنا کرنا پڑا۔ڈرامہ کی کاسٹ میں صنم بلوچ، احسن خان ،فواد خان، صبا قمر  اور دیگر بڑے نام شامل ہیں۔

جس خوبصورتی کے ساتھ اس ڈرامے میں برصغیر کی تقسیم سے متاثرہ لڑکی کی ہندوستان سر حد چھوڑنے  کی دکھ بھری داستان کو بیان کیا گیا ہے وہ واقعی قابلِ ستائش ہے۔
              


'درشہوار'

بظاہر تو یہ ایک عام کہانی لگتی ہے لیکن اس کہانی  کا  اندازِ بیاں، منظرکشی، حمیرا  احمد  کے دل کو چھو جانے  والے  ڈایلوکس  اور  اداکاروں  کی  بہترین  اداکاری  اس  عام  کہانی  کو  خاص  بنادیتی  ہے۔
درشہوار  صنم  بلوچ  کے  ہٹ  اور  لاجواب  ڈراموں  میں  سے  ایک  ہے۔  یہ ڈرامہ ازواجِ  زندگی اور اس زندگی میں عورت کے مثبت کردار کو فروغ دیتا ہے
ڈرامہ کی کہانی دو پلاٹس میں چلتی ہے۔ایک پلاٹ جہاں آج کے دور کی پڑھی   لکھی انڈیپنڈنٹ لڑکی شندانہ شادی شدہ زندگی کے مختلف مسائل سے دوچار ہے۔دوسرے پلاٹ میں شندانہ کی ماں درشہوار کی کہانی ہے۔درشہوار جو اپنی شادی شدہ زندگی کی مضبوطی کیلئے مختلف نشیب و فراز سے گزر چکی ہے۔




'شھر ذات'

شھر ذات ڈرامہ حمیرا احمد کے تحریر کردہ ناول پر بنایا گیا ہے۔ 2012 میں اس روحانی رومانوی ڈرامے کو خوب پذیرائی ملی۔
جس کا موضوع روحانیت ہے۔ڈرامے کی کہانی ایلیٹ کلاس لڑکی فلک کے گرد گھومتی ہے۔ جو خوبصورتی، دولت، سٹیٹس غرض دنیا کی ہر آسائش سے مالا مال ہے۔ لیکن اپنی دیوانہ وار محبت کو اتنی آسانی سے چھن جانے پر وہ سمجھ پاتی ہے کہ دنیاوی چکاچوند کتنی بے بنیاد اور خدا کی محبت کتنی سچی ہے۔ روحانیت کے عقیدے کو پردے پر لانا ہمیشہ ہی مشکل رہا ہے لیکن شھر ذات نے بے مثال ڈائیلاگس اور جاندار اداکاری پر خوب تعریفیں سمیٹی   ہے۔
سونے پر سہاگا اس کا او یس ٹی ہے جو عظیم صوفی گلوکارہ عابدہ پروین کی آواز میں ہے۔





'زندگی گلزار ہے'


اس ڈرامے کو اگر ایک جملے میں بیان کریں تو وہ ہے 'شکوے سے شکر تک کا سفر'۔ یہ کہانی کشف نامی لڑکی کی ہے جو احساسِ کمتری کے باعث منفی سوچوں کا شکار ہے۔ کشف جس کا اللہ کے ساتھ شکوے شکایتوں کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔
لیکن جیسے جیسے کہانی آگے بڑھتی ہےاسے اپنے لئے خدا کی بے شمار عطا کردہ نعمتوں کا احساس ہوتا ہے۔اس ڈرامے سے انڈسٹری میں اپنی جگہ بنانے والی صنم سعید کو آج بھی لوگ کشف کے نام سے یاد رکھنا چاہتے ہیں۔




'باغی'

آخر میں جس ڈرامے کی بات کرنے جا رہی ہوں اس کی کہانی سوشل میڈیا سے شہرت پانے والی اسٹار کی اصل زندگی پر ہے۔

کنول بلوچ نامہ یہ کردار جہاں ایک طرف غربت، گھریلو تشدد، بےروزگاری اور بے وفائی سے جارحانہ لڑتا ہے۔ وہی دوسری طرف اپنی محرومیوں کو ختم کرنے کے لئے ہر جائز و ناجائز طریقہ اختیار کرتا نظر آتا ہے۔ باغی ہمارے معاشرے کی وہ تصویر  بھی پیش کرتا ہے جہاں ہر کوئی اپنی ذات کو فرشتہ اور دوسرے کو شیطان ثابت کرنے میں لگاہے

یہ ڈرامہ ٹیلی ویژن پر نشر ہونے سے پہلے ہی سرخیوں میں رہا اور نشر ہوتے ہی اس نے مقبولیت کے تمام ریکارڈ توڑ دیے۔ بے باک، نڈر، آزاد خیال سوشل میڈیا اسٹار کا کردار صبا قمر نے بخوبی نبھایا۔
          




کورونا وائرس: فضائی آلودگی اور کورونا وائرس سے ہلاکتوں کی شرح کے درمیان تعلق

  
امریکہ میں ہارورڈ یونیورسٹی کی ایک تحقیق کے مطابق امریکہ کے اُن علاقوں میں کورونا   وائرس سے مرنے والوں کی شرح زیادہ ہے جہاں فضا میں پی ایم 2.5 نامی ذرات کی بڑی مقدار موجود ہے۔

عالمی ادارۂ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے حکام کا کہنا ہے کہ فضا میں آلودگی کی بڑھی ہوئی سطح ایسے افراد کے لیے ایک اضافی خطرہ بن سکتا ہے جو کووڈ 19 سے بری طرح متاثر ہو رہے ہوں۔
ہارورڈ یونیورسٹی سمیت دو تازہ تحقیقوں میں فضائی آلودگی اور کورونا وائرس سے ہلاکتوں کی شرح کے درمیان تعلق سامنے آیا ہے۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ڈبلیو ایچ او میں صحتِ عامہ اور ماحول کے ڈیپارٹمنٹ کی ڈائریکٹر ڈاکٹر ماریہ نیرہ نے کہا کہ وہ ممالک جہاں فضائی آلودگی زیادہ ہے انھیں کووڈ 19 کے خلاف لڑائی کی تیاری میں اِس عنصر کو بھی مددِ نظر رکھنا ہو گا۔
'ہم لاطینی امریکہ، افریقہ اور ایشیا میں ایسے ممالک کا جائزہ لے رہے ہیں جہاں فضائی آلودگی زیادہ ہے اور ہم وہاں کے حکام کی جانب سے مہیا کیے جانے والے اعداد وشمار کی مدد سے اِن علاقوں میں سب سے زیادہ آلودہ شہروں کا نقشہ بنائیں گے تاکہ وہ اِس کے مطابق حالیہ وبا کے خلاف منصوبہ بندی کر سکیں۔'
طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کی وبا اور فضائی آلودگی کے درمیان کسی براہ راست تعلق کو ثابت کرنا ابھی قبل از وقت ہے۔ لیکن کئی ایسے ممالک میں، جہاں فضائی آلودگی زیادہ ہے، طبی حکام کا کہنا ہے کہ انھوں نے کچھ ایسے مریضوں کو بھی دیکھا ہے جن کو فضائی آلودگی کی وجہ سے پہلے ہی صحت کے مسائل تھے اور انھیں کورونا وائرس نے زیادہ نقصان پہنچایا۔

 

فضائی آلودگی سے ہونے والی ہلاکتیں

عالمی ادارۂ صحت کے مطابق فضائی آلودگی کی وجہ سے دنیا بھر میں ہر سال تقریباً 70 لاکھ افراد ہلاک ہو جاتے ہیں۔
عالمی سطح پر فضائی آلودگی کے بارے میں گزشتہ برس شائع ہونے والی ورلڈ بینک کی پورٹ کے مطابق فضائی آلودگی سے زیادہ متاثر ہونے والے بہت سارے ممالک جنوبی ایشیا، مشرقِ وسطی، سب صحارن افریقہ اور شمالی افریقہ میں ہیں۔
ماحول سے متعلق ڈبلیو ایچ او اور اقوامِ متحدہ کی کئی رپورٹوں میں لاطینی امریکہ کے ممالک چلی، برازیل، میکسیکو اور پیرو کے کئی شہروں کو فضائی آلودگی کے لحاظ سے خطرناک قرار دیا جا چکا ہے۔'
امریکہ کی ہارورڈ یونیورسٹی کی تحقیق میں اِس بات کی نشاندہی کی گئی ہے کہ کورونا وائرس کی وبا پھیلنے سے کئی برس پہلے سے اگر فضائی آلودگی میں کمی ہوتی تو اِس وائرس سے ہلاکتوں کی شرح کافی کم ہوتی۔ 
اِس تحقیق کے مطابق وبا شروع ہونے سے پہلے کے کچھ برسوں میں ہوا میں آلودہ ذرات کا تھوڑا سا اضافہ کووڈ 19 سے اموات کی شرح میں 15 فیصد تک اضافے کا باعث بن سکتا ہے۔
تحقیق میں امریکہ کے زیادہ تر شہروں کو شامل کیا گیا ہے۔ ملکی سطح پر فضائی آلودگی اور مردم شماری کے اعداد و شمار کو استعمال کرتے ہوئے انھیں جان ہاپکنز یونیورسٹی کے کورونا وائرس ریسورس سینٹر کے ہلاکتوں کے اعداد و شمار سے موازنہ کیا گیا ہے۔
ہارورڈ یونیورسٹی کے ٹی این چین سکول آف پبلک ہیلتھ کی اِس تحقیق کے مطابق اُن علاقوں میں شرحِ اموات بڑھی ہے جہاں فضا میں پی ایم 2.5 نامی ذرات کی مقدار زیادہ ہے۔
پی ایم 2.5 فضا میں موجود بہت چھوٹے ذرات ہوتے ہیں جن کا سائز انسانی بال کے قطر سے 13 گنا کم ہوتا ہے۔ اِن ذرات کو نظامِ تنفس کے انفیکشن اور پھیپڑوں کے کینسر کی ایک وجہ قرار یا جا چکا ہے۔
شمالی اٹلی میں کی جانے والی ایک دوسری تحقیق میں بھی یہ سامنے آیا ہے کہ کورونا وائرس کی وبا کے دوران خطے میں زیادہ اموات کی ایک وجہ فضائی آلودگی کی بڑھی ہوئی سطح ہے۔
اٹلی کی یونیورسٹی آف سائنا اور ڈنمارک کی آرہس یونیورسٹی کی مشترکہ تحقیق میں بھی فضائی آلودگی اور کورونا وائرس سے اموات کے درمیان تعلق کی جانب اشارہ کیا گیا ہے۔
21 مارچ تک کے اعداد و شمار کے مطابق اٹلی کے علاقوں لومبارڈی اور ایمیلیا میں باقی ملک کے مقابلے میں کورونا وائرس سے اموات کی شرح 12 فیصد زیادہ تھی۔ سائنس ڈائریکٹ میں شائع ہونے والی اِس تحقیق کے مطابق شمالی اٹلی میں فضائی آلودگی کو زیادہ اموات کی ایک اضافی وجہ کے طور پر دیکھا جانا چاہیے۔ 

ترقی پزیر ممالک میں فضائی آلودگی

عالمی ادارۂ صحت کے مطابق دنیا کی 90 فیصد آبادی ایسے علاقوں میں رہتی ہے جہاں فضائی آلودگی کی سطح مقررہ حد سے زیادہ ہے۔ ایسی زیادہ تر آبادیاں غریب ممالک میں ہیں۔
فلپائن میں سانس کی بیماریوں کے معالج سیزر بوگاوسن کہتے ہیں کہ ان کے ملک میں ابتدائی اعداد و شمار یہ بتاتے ہیں کہ کورونا وائرس سے ہلاک ہونے والے تقریباً تمام افراد کو پہلے ہی صحت کے ایسے مسائل تھے جن میں زیادہ تر کا تعلق فضائی آلودگی سے تھا۔
گزشتہ برس ورلڈ ایئر کوائلٹی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ انڈیا میں ایسے شہروں کی تعداد دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہے جہاں فضائی آلودگی کی سطح بہت بڑھی ہوئی ہے۔
انڈیا میں کچھ ڈاکٹروں نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ فضائی آلودگی اور کووڈ 19 کے درمیان ممکنہ تعلق کو بہت سنجیدگی سے دیکھ رہے ہیں۔
دلی میں ایک سینئر ڈاکٹر ایس کے چھابڑا کا کہنا ہے کہ 'اگر یہ وبا انڈیا میں بھی تیزی سے پھیلتی ہے تو ایسے لوگ جو فضائی آلودگی کی وجہ سے بیماریوں میں مبتلا ہیں زیادہ متاثر ہوں گے۔
پبلک ہیلتھ فاؤنڈیشن کے صدر پروفیسر سری ناتھ ریڈی نے بھی اِس بات سے اتفاق کیا۔
'آلودگی کی وجہ سے اگر کسی کی سانس کی نالی اور پھیپڑوں کے ٹشو پہلے ہی خراب ہو چکے ہیں تو ایسے شخص کا کورونا وائرس سے بچنا بہت مشکل ہو گا۔'
لیکن انڈیا میں صحتِ عامہ کے حکام کہتے ہیں کہ ابھی اِس تعلق کے بارے میں معلومات اور شواہد موجود نہیں ہیں۔